غصے کی کہانی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹا لڑکا تھا جسے بہت جلد غصہ آ جاتا تھا۔اس کے والد نے اسے کیلوں سے بھرا ہوا ایک تھیلا دیا اور کہا کہ جب بھی وہ اپنا غصہ قابو میں نہ رکھ سکے، تو اسے باڑ کے پیچھے ایک کیل ٹھونکنی ہوگی۔پہلے دن اس لڑکے نے 37 کیلیں باڑ میں ٹھونکی۔ اگلے چند ہفتوں میں، جیسے جیسے اس نے اپنے غصے پر قابو پانا سیکھا، روزانہ ٹھونکی جانے والی کیلوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ غصے پر قابو پانا، کیلیں ٹھونکنے سے کہیں آسان ہے۔
آخرکار وہ دن آ ہی گیا جب لڑکے کو ایک بار بھی غصہ نہیں آیا۔ اس نے اپنے والد کو بتایا۔ والد نے مشورہ دیا کہ اب جب بھی وہ اپنے غصے پر قابو پائے، تو باڑ سے ایک کیل نکال دے۔وقت گزرتا گیا اور بالآخر لڑکے نے اپنے والد کو خوشی سے بتایا کہ اس نے تمام کیلیں نکال دی ہیں۔ والد نے بیٹے کا ہاتھ تھاما اور اُسے باڑ کے پاس لے گئے۔
انہوں نے کہا: “بیٹا، تم نے بہت اچھا کام کیا ہے، لیکن ذرا باڑ میں یہ سوراخ دیکھو۔ باڑ کبھی ویسی نہیں رہ سکتی جیسی پہلے تھی۔ جب ہم غصے میں کچھ کہتے ہیں، تو وہ الفاظ بھی دل میں ایسے ہی نشان چھوڑ جاتے ہیں۔تم کسی انسان کے جسم میں چھری مار سکتے ہو اور بعد میں نکال بھی لو، لیکن چاہے تم جتنی بار بھی معذرت کرو، وہ زخم اپنی جگہ رہتا ہے۔ زبان کا دیا گیا زخم جسمانی زخم کی طرح ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔”